پشتو مزاحیہ فنکار مروَس انتقال کر گئے – ایک عہد تمام ہوا

پشتو کے معروف مزاحیہ فنکار مروَس، جن کا اصل نام حیات خان تھا، طویل عرصے سے ذیابیطس کے عارضے میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کا تعلق چارسدہ کی تحصیل ٹنگی کے گاؤں ملاکhel سے تھا اور وہ 1955 میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات پشتو تفریحی صنعت کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے، کیونکہ وہ اپنے منفرد طنز و مزاح اور سماجی شعور پر مبنی تحریروں اور اداکاری کے لیے جانے جاتے تھے۔

پشتو تھیٹر اور ثقافت کے سرخیل

مروَس نے صرف 15 سال کی عمر میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنّی سفر کا آغاز کیا۔ جلد ہی ان کی ذہانت اور شگفتہ طرزِ گفتگو نے انہیں پورے پاکستان میں مقبول بنا دیا۔ وہ صرف ملک میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کم از کم 18 ممالک میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں، جہاں انہوں نے پشتون کمیونٹی کو ہنسی، فخر اور ثقافتی شعور بخشا۔

ان کے فنی خزانے میں 766 سے زائد آڈیو کیسٹس، درجنوں ٹی وی و ریڈیو شوز، اور بے شمار اسٹیج پرفارمنسز شامل ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کا خراجِ عقیدت

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنماؤں، بشمول صوبائی صدر میاں افتخار حسین اور جنرل سیکرٹری حسین شاہ یوسفزئی نے ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ انہوں نے مروَس کے پشتو ادب، تھیٹر اور زبان کے فروغ میں خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اُن کا فن صرف تفریح تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ معاشرتی مسائل کی نشاندہی بھی بڑے موثر انداز میں کرتے تھے۔

مزاح کا چراغ جو آخری سانس تک جلتا رہا

اگرچہ بیماری نے ان کی بینائی، سماعت اور جسمانی حرکات کو متاثر کیا، لیکن انہوں نے آخری سانس تک مسکراہٹیں بکھیرنا بند نہ کیا۔ اپنی زندگی کے آخری ماہ میں وہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں زیرِ علاج رہے۔

ادبی خدمات اور عالمی اعزازات

مروَس کی ادبی خدمات میں ان کی مشہور کتاب “خندہ پہ ټوکو، ټوکو کے” شامل ہے، جو پشتو مزاح نگاری کا قیمتی سرمایہ سمجھی جاتی ہے۔ ان کی مقبولیت اور اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برونائی دارالسلام کے مادام تساؤ میوزیم میں ان کا مجسمہ نصب کیا گیا — جس کا ذکر پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل کی شہرۂ آفاق کتاب “دہ چارسدہ تاریخ” میں بھی کیا گیا ہے۔

مزاحیہ فن کا ایک سنہرا باب بند ہوا

مروَس کی وفات پشتو مزاحیہ ادب اور اسٹیج کامیڈی کا ایک سنہری باب بند ہونے کے مترادف ہے۔ ان کی یادگار خدمات آنے والی نسلوں کے فنکاروں کے لیے مشعلِ راہ بن چکی ہیں۔ آج ان کے چاہنے والے اور ہم عصر فنکار ان کے فن کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں، اور یہ عزم ظاہر کر رہے ہیں کہ مروَس کا ہنستا مسکراتا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا۔


🗝️ کلیدی الفاظ:

پشتو مزاحیہ فنکار، مروَس، حیات خان، چارسدہ، پشتو تھیٹر، عوامی نیشنل پارٹی، پشتون ثقافت، کامیڈی، طنز، مزاح، پشتو ادب


💬 اپنی رائے کا اظہار کریں

ہم آپ کی رائے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس خبر کے بارے میں اپنے خیالات نیچے کمنٹس میں ضرور شیئر کریں۔